Tuesday, May 31, 2011

انگور اور شراب

انگور اور شراب
مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔
اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔  کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟
شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟
کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟
شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟
شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل  بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔
کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر  ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟
شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔
کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی  ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!
ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔
کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟
مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔

Sunday, March 20, 2011

قصہ ایک مچھیرے کا

قصہ ایک مچھیرے کا
ايک دفعہ كا ذكر ہے كہ ايک تھا مچھیرا ، اپنے كام ميں مگن اور راضی خوشی رہنے والا۔ وہ صرف مچھلی كا شكار كرتا اور باقی وقت گھر پر گزارتا۔ قناعت كا يہ عالم كہ جب تک پہلی شكار كی ہوئی مچھلی ختم نہ ہو دوبارہ شكار پر نہ جاتا۔
ايک دن كی بات ہے کہ ۔۔۔ مچھیرے کی بيوی اپنے شوہر کی شكار كردہ مچھلی كو  چھیل كاٹ رہی تھی كہ اس نے ايک حيرت ناک منظر ديكھا۔۔۔ حيرت نے تو اسكو كو دنگ كر كے ركھ ديا تھا۔۔۔ ايک چمكتا دمكتا موتی مچھلی كے پيٹ ميں۔۔۔ سبحان  اللہ ۔۔۔ سرتاج، سرتاج، آؤ ديكھو تو، مجھے كيا ملا ہے۔۔۔ كيا ملا ہے، بتاؤ تو سہی۔۔۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی ۔۔۔ كدھر سے ملا ہے۔۔۔ مچھلی کے پيٹ سے۔۔۔ لاؤ مجھے دو ميری پياری بيوی، لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس كو بيچ كر مچھلی كے علاوہ كچھ اور كھانا کھانے كو ملے گا۔۔۔
مچھیرے نے بيوی سے موتی لیا۔۔۔ اور محلے كے سنار كے پاس پونہچا۔۔۔ السلام عليكم۔۔۔ و عليكم السلام۔۔۔ جی قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی كےپيٹ سے موتی ملا ہے۔۔۔ دو مجھے ، ميں ديكھتا ہوں اسے۔۔۔ اوہ،،،، يہ تو بہت عظيم الشان ہے۔۔۔ ميرے پاس تو ايسی قيمتی چيز خريدنے كی استطاعت نہيں ہے۔۔۔ چاہے اپنا گھر ، دكان اور سارا مال و اسباب ہی كيوں نہ بيچ ڈالوں، اس موتی كی قيمت پھر بھی ادا نہیں کر سكتا میں۔۔۔ تم ايسا كرو ساتھ والے شہر كے سب سے بڑے سنار كے پاس چلے جاؤ۔۔۔ ہو سكتا ہے كہ وہ اسکی قيمت ادا كر سكے، جاؤ اللہ تيرا حامی و ناصر ہو۔۔۔
مچھیرا موتی لے كر، ساتھ والے شہر كے سب سے امير كبير سنار كے پاس پونہچا، اور اسے سارا قصہ كہہ سنايا۔۔۔ مجھے بھی تو دكھاؤ، ميں ديكھتا ہوں ايسی كيا خاص چيز مل گئی ہے تمہيں۔۔۔ اللہ اللہ ، پروردگار كی قسم ہے بھائی، ميرے پاس اسكو خريدنے کی حيثيت نہیں ہے۔۔۔ ليكن ميرے پاس اسكا ايک حل ہے، تم شہر كے والی کے پاس چلے جاؤ۔۔۔ لگتا ہے ايسا موتی خريدنے كی اسكے پاس ضرور حيثيت ہوگی۔۔۔ مدد كرنے كا شكريہ، ميں چلتا ہوں والی شہر کے پاس۔۔۔
اور اب شہر كے والی كے دروازے پر ہمارا یہ مچھیرا دوست ٹھہرا ہوا ہے، اپنی قيمتی متاع كے ساتھ، محل ميں داخلے كی اجازت كا منتظر۔۔۔ اور اب شہر كے والی كے دربار ميں اس كے سامنے۔۔۔ ميرے آقا، يہ ہے ميرا قصہ ، اور يہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی كے پيٹ سے ملا۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ كيا عديم المثال چيز ملی ہے تمہيں، ميں تو گويا ايسی چيز ديكھنے كی حسرت ميں ہی تھا۔۔۔ ليكن كيسے اس كی قيمت كا شمار كروں۔۔۔ ايک حل ہے ميرے پاس، تم ميرے خزانے ميں چلے جاؤ۔۔۔ اُدھر تمہيں 6 گھنٹے گزارنے كی اجازت ہوگی۔۔۔ جس قدر مال و متاع لے سكتے ہو لے لينا، شايد اس طرح موتی کی كچھ قيمت مجھ سے ادا ہو پائے گی۔۔۔ آقا، 6 گھنٹے!!!! مجھ جيسے مفلوک الحال مچھیرے كيلئے تو 2 گھنٹے بھی كافی ہيں۔۔۔ نہيں، 6 گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سكتے ہو، اجازت ہے تمہيں۔۔۔
ہمارا یہ مچھیرا دوست والی شہر كے خزانے ميں داخل ہو كر دنگ ہی رہ گيا، بہت  بڑا اور عظيم الشان ہال كمرا، سليقے سے تين اقسام اور حصوں ميں بٹا ہوا، ايک قسم ہيرے، جواہرات اور سونے كے زيورات سے بھری ہوئی۔۔۔ ايک قسم ريشمی پردوں سے مزّين اور نرم و نازک راحت بخش مخمليں بستروں سے آراستہ۔۔۔ اور آخری قسم كھانے پينے كی ہر اُس شئے سے آراستہ جس كو ديكھ كر منہ ميں پانی آجائے۔۔۔
مچھيرے نے اپنے آپ سے كہا،،، 6 گھنٹے؟؟؟ مجھ جيسے غريب مچھیرے كيلئے تو بہت ہی زيادہ مہلت ہے يہ۔۔۔ كيا كروں گا ميں ان 6 گھنٹوں ميں آخر؟؟؟ خير۔۔۔ كيوں نہ ابتدا كچھ كھانے پينے سے كی جائے؟؟؟ آج تو پيٹ بھر كر كھاؤں گا، ايسے كھانے تو پہلے كبھی ديكھے بھی نہيں۔۔۔ اور اس طرح مجھے ايسی توانائی بھی ملے گی جو ہيرے، جواہرات اور زيور سميٹنے ميں مدد دے۔۔۔
اور جناب ہمارا يہ مچھیرا دوست خزانے كی تيسری قسم ميں داخل ہوا۔۔۔ اور ادھر اُس نے والی شہر كی عطاء كردہ مہلت ميں سے دو گھنٹے گزار ديئے۔۔۔ اور وہ بھی محض كھاتے، كھاتے، كھاتے۔۔۔ اس قسم سے نكل كر ہيرے جواہرات كی طرف جاتے ہوئے، اس كی نظر مخمليں بستروں پر پڑی، اُس نے اپنے آپ سے كہا۔۔۔ آج تو پيٹ بھر كر كھايا ہے۔۔۔ كيا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام كر ليا جائے تو، اس طرح مال و متاب جمع كرنے ميں بھی مزا آئے گا۔۔۔ ايسے پر تعيش بستروں پر سونے كا موقع بھی تو بار بار نہيں ملے گا، اور موقع كيوں گنوايا جائے۔۔۔ مچھيرے نے بستر پر سر ركھا اور بس،،،، پھر وہ گہری سے گہری نيند ميں ڈوبتا  چلا گيا۔۔۔
اُٹھ ۔ اُٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہو چكی ہے۔۔۔ ہائيں، وہ كيسے؟؟؟ جی، تو نے ٹھيک سنا ہے، نكل ادھر سے باہر كو۔۔۔ مجھ پر مہربانی كرو، مجھے كافی وقت نہيں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ تجھے اس خزانے ميں آئے 6 گھنٹے گزر چكے ہيں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے۔۔۔! اور ہيرے جواہرات اكٹھے كرنا چاہتا ہے كيا؟؟؟ تجھے تو یہ سارا خزانہ سميٹ لينے كيلئے كافی وقت ديا گيا تھا۔۔۔ تاكہ جب ادھر سے باہر نكل كر جاتا تو ايسا بلكہ اس سے بھی بہتر کھانا خريد پاتا۔۔۔ اور اس جيسے بلكہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا۔۔۔ ليكن تو احمق نكلا كہ غفلت ميں پڑ گيا۔۔۔ تو نے اس كنويں كو ہی سب كچھ جان ليا جس ميں رہتا تھا۔۔۔ باہر نكل كر سمندروں كی وسعت ديكھنا تونے گوارہ ہی نہ کی۔۔۔ نكالو باہر اس كو۔۔۔ نہيں، نہيں، مجھے ايک مہلت اور دو، مجھ پر رحم كھاؤ۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
(( يہ قصہ تو ادھر ختم ہو گيا ہے ))
ليكن عبرت حاصل كرنے والی بات ابھی ختم نہيں ہوئی۔۔۔
اُس قيمتی موتی كو پہچانا ہے آپ لوگوں نے؟؟؟
وہ تمہاری روح ہے اے ابن آدم، اے ضعيف مخلوق!!!
يہ ايسی قيمتی چيز ہے جس كی قيمت كا ادراك بھی نہيں کیا جا سكتا۔۔۔
اچھا، اُس خزانے كے بارے ميں سوچا ہے كہ وہ كيا چيز ہے؟؟؟
جی ہاں، وہ دنيا ہے۔۔۔
اسكی عظمت كو ديكھ دیکھ اسكے حصول كيلئے ہم كيسے مگن ہيں؟؟؟
اس خزانے ميں ركھے گئے ہيرے جواہرات!!!
وہ تيرے اعمال صالحہ ہيں۔۔۔
اور وہ پر تعيش و پر آسائش بستر!!!
وہ تيری غفلت ہيں۔۔۔
اور وہ كھانا-پينا!!!
وہ شہوات ہيں۔۔۔
اور اب۔۔۔ اے مچھلی كا شكار كرنے والے دوست۔۔۔
اب بھی وقت ہے كہ نيندِ غفلت سے جاگ جا،،
اور چھوڑ دے اس پر تعيش اور آرام دہ بستر كو۔۔۔
اور جمع كرنا شروع كر دے ان ہيروں اور جواہرات كو جو کہ تيری دسترس ميں ہی ہیں۔۔۔
اس سے قبل كہ تجھے دی گئی 6 گھنٹوں كی مہلت ختم ہو جائے۔۔۔
تجھے محض حسرت ہی رہ جائے گی۔۔۔
خزانے پر مأمور سپاہيوں نے تو تجھے ذرا سی بھی اور زيادہ فرصت نہيں دينی،
اور تجھے ان نعمتوں سے باہر نكال دينا ہے جن ميں تو رہ رہا ہے۔۔۔

Wednesday, March 9, 2011

Money and Relations

روپیہ پیسہ بڑے بڑے رشتے اور تعلق بھلا دیتا ہے

ایک دفعہ ونسٹن چرچل کو ریڈیو پر اپنی قوم کو خطاب کرنے کے لئے جانا تھا۔ وہ گھر سے نکلا اور اس نے ٹیکسی والے

کے پاس جا کر اپنے مطلوبہ مقام پر جانے کے لئے کہا۔ تو ٹیکسی ڈرائیور نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کر دیا کہ اس نے

آج اپنے عزیز اور پسندیدہ لیڈر چرچل کی تقریر سننی ہے اس لئے وہ نہیں جائے گا۔ یہ سن کر چرچل بہت خوش ہوا

اور اس نے اس ٹیکسی ڈرائیور کو کچھ رقم تھما دی ۔ اور پیدل چلنا شروع ہو گیا۔ تو پیچھے سے ٹیکسی ڈرائیور نے اسے

آواز دی کہ آو میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں جہاں آپ نے جانا ہے چرچل کو دفعہ کرو اس کی تقریر کا کیا کرنا ہے۔ آپ

جیسا ہمدرد اور سخی لوگ کونسا روز روز ملتے ہیں۔ اس کے یہ الفاظ ادا کرنے کے بعد چرچل اس سے مخاطب ہوا کہ

میں ہی ونسٹن چرچل ہوں۔ جس پر وہ ڈرائیور بہت نادم ہوا اور اس نے اپنے کہے پر معافی مانگی۔ لیکن چرچل نے

اسے صرف اتنا کہا۔روپیہ پیسہ بڑے بڑے رشتے اور تعلق بھلا دیتا ہے

Tuesday, March 8, 2011

Mathematics Genius Child

حساب کتاب کرنے میں ماہر بچے۔
جمع تفریق ، ضرب اور تقسیم تو ان کے لئے آنکھ جھپنکے کی مار ہے


Monday, February 28, 2011

Pak-US joint army operation video leaked

افغانستان میں موجود امریکی افواج پاکستانی علاقوں کے اندرآکردونوں ملکوں کی سرحدوں پرتعینات پاکستانی پیراملٹری فورسز کے ساتھ مشترکہ کارروائیاں کرتی ہیں۔ان مواقع پرامریکی فوج کےلئے کام کرنے والی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے اہلکاربھی ان میٹنگز اور کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے عمل میں شریک رہتے ہیں۔



پاکستان کے علاقے مہمند ایجنسی سے منسوب ایک ویڈیو کےمنظرعام پر آنے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ دونوں ملکوں کی افواج اگر چہ عوامی سطح پرخود کو الگ الگ دائروں تک محدود رکھتی ہیں لیکن عملی طورپرایسا نہیں ہے بلکہ پاکستانی اورامریکی فورسزمشترکہ کارروائیاں کرتی اورامریکییوں کاپاکستانی علاقوں میں آنا معمول کی بات ہے۔

ماضی میں امریکی کمانڈوز پاکستان کے قبائلی علاقے میں دو زمینی کارروائیاں بھی کر چکی ہیں جن میں سے ایک میں پاکستان کی سرحدی چوکی پرتعینات فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ دوسری کارروائی خیبر ایجنسی کے سرحدی گائوں میں کی گئی تھی  جس میں سویلین ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ان دونوں کارروائیوں کی ابتداء میں پاکستانی فوج کے میڈیاریلیشن کے ذمہ دار ادارے آئی ایس پی آر نے ان واقعات کی تردید کی تھی۔تاہم دوسری کارروائی پرامریکہ سے شدید احتجاج کیاگیاتھا جس کے تحت پاکستان کے راستے افغانستان میں تعینات امریکی وناٹوفورسز کو جانے والی سپلائی لائن معطل کر دی گئی تھی۔

ان دونوں کارروائیوں کے موقع پر افغانستان کی جانب سے تواتر کے ساتھ پاکستان پریہ الزام لگایا جاتا رہا تھا کہ عسکریت پسند اور طالبان کے حمایتی عناصر ناٹوفورسز کے بعد کارروائیاں کر کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیتے ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں تیار کی گئی ویڈیومبینہ طورپرپاکستانی قبائلی پٹی مہمند ایجنسی کےعلاقے SORAN DARRA کی ہے۔جہاں 9کےقریب امریکی فوجی ایک سویلین لباس میں ملبوس امریکی نظرآنے والے فرد کے ساتھ پاکستانی فورسز سے میٹنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اس سے قبل جمعہ کوپاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے خارجہ حناربانی کھر یہ تسلیم کر چکی ہیں کہ پاکستان میں851 امریکی موجود ہیں جن میں سے سفارتی اہلکار554اورغیرسفارتی عملہ 297کی تعداد میں ہے۔ حالیہ ویڈیو بنانے کے انداز اورتیاری کے دوران موقع پرموجود پاکستانی وامریکی فوجیوں کے ردعمل سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ ریکارڈنگ کرنے والے کا تعلق یہیں موجود فوجیوں سے ہے۔ موبائل کیمرے سے بنائی گئی ویڈیو کی طوالت 3منٹ سے زائد کی ہے۔

مبینہ طور پر مہمند ایجنسی میں عسکری آپریشن سے قبل منصوبہ بندی کےلئے ہونے والی مشترکہ میٹنگ کی ویڈیو میں پاکستان کی سرحدی فورس فرنٹئیرکانسٹیبلری کے اہلکار اپنے کیپٹن رینک کے کمانڈر کے ساتھ وہاں موجود دکھائےگئے ہیں۔ایک گروپ میں بیٹھے ہوئے دونوں ملکوں کے فوجی باہم گفتگو میں مصروف ہیں جب کہ سویلین لباس میں موجود کسی نجی سیکورٹی ایجنسی کا اہلکار دکھنے والا فرد اس دوران مسلسل اپنے پاس موجود کاغذات پرکچھ نوٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

قبل ازیں پاکستان کی خارجہ پالیسی اورپاک امریکہ تعلقات پر نظررکھنے والے مبصرین یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک میں 5ہزار سےزائد امریکی اہلکارموجود ہیں جن میں سے بیشترامریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی اورحکومت پاکستان کی خصوصی اجازت کے بعد حاصل ہونے والے ویزہ پرپاکستان آئے ہیں۔

مبینہ عسکری آپریشن سے قبل تیار کی گئی ویڈیو کے دوران امریکی فوجیوں کےلئے قبائلی علاقوں میں مہمان نوازی کی علامت کے طور پر معروف قہوہ لایا جاتا ہے۔پاکستانی فوج سے کی جانے والی میٹنگ پر مبنی اس ویڈیو کی تیاری کسی پاکستانی چیک پوسٹ کے قریب کی گئی محسوس ہوتی ہے ۔تین منٹ ستائیس سیکنڈ کی طوالت رکھنے والی اس ویڈیو کی ریکارڈنگ میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ دو امریکی اورچار کے قریب پاکستانی اہلکار پہاڑی چوٹی پرکھڑے اردگرد کے علاقے پرنظررکھےہوئے ہیں جب کہ ان کے درمیان میں زمین پر بیٹھے باقی افراد ایک دائرے کی صورت میں مسلسل میٹنگ کر رہے ہوتے ہیں۔

27جنوری کولاہور میں دو پاکستانیوں کے قتل کرنے کے بعد گرفتار ہونے والے مائیکل جارج فرنانڈس عرف ریمنڈڈیوس کے متعلق بھی یہ اطلاعات میڈیا رپورٹس کا حصہ بن چکی ہیں کہ پاکستان میں انتہاپسند گروپوں پر نظر رکھنے کے ساتھ اس کی ذمہ داری امریکی مفادات کے تحفظ کےلئے نیٹ ورکس کاقیام بھی تھا۔

پاکستانی وامریکی فوجیوں کی مشترکہ ویڈیو منظرعام پرآنے کے بعد ایک بار پھر یہ سوال سامنے آیا ہے کہ حکومت پاکستان عوامی سطح پرتوامریکی کارروائیوں کی مخالفت کرتی ہے لیکن درپردہ امریکی ایماء پرجاری جنگ کا اہم حصہ ہے۔



امریکی وپاکستانی افواج کی جانب سے کئے جانے والے مشترکہ یا انفرادی آپریشنز میں عسکریت پسندوں اور اتحادی افواج کے خلاف برسرپیکارطالبان کوختم کرنے کادعوی کیا جاتا رہاہے لیکن آزاد ذرائع اوراقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں 2001ء کے حملے کے بعد سے مرنے والوں کی بڑی تعدادعام سویلینزکی ہے۔گزشتہ برس کے حوالے سے جاری کی جانے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ 70فیصد سے زائد ہلاکتیں سویلینز کی ہیں۔

قبل ازیں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ حمید گل کا یہ کہناتھاکہ ریمنڈڈیوس ایشو پرسامنے آنے والی معلومات اور امریکی طرز عمل نے یہ طے کر دیا ہے کہ پاکستان کوعالمی قوت کے ساتھ اپنے تعلقات اور اس کے مفادات کی تکمیل کےلئے لڑی جانے والی جنگ میں اپنے کردار پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔

آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشااورسی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹا کے درمیان ہونے والے ٹیلیفونک رابطے میں امریکہ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہےکہ وہ پاکستان میں موجود اپنے اہلکاروں کو بے نقاب کرے لیکن اب تک کھلے عام کی جانے والی مشترکہ کارروائیوں کے متعلق ریکارڈ کی سطح پرکوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں سی آئی اے کے ایک ہزار سے زائد ایسے ایجنٹس کے متعلق اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں جنیں سویلین حکومت نے پاکستانی ایجنسی کو اوورکراس کر کے ملک میں آنے کی اجازت دی ہے۔
آرٹیکل کا ربط

Sunday, February 27, 2011

لاہور میں برفباری ہو تو کیسا منظر ہو؟



لاہور: ژالہ باری کے بعد گلبرگ کا علاقہ یورپ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ فوٹو ایکسپریس اخبار











فیس بک سے لی گئی تصویر




Punjabi Song and Car Dance

Tuesday, February 22, 2011

زلزلہ کس سے رکا؟

زلزلہ کس سے رکا !





کسی بڑے زلزلے کے آفٹر شاکس عموماً تین ماہ تک آتے رہتے ہیں۔لیکن بڑے انقلاب کے آفٹر شاکس پچاس سے پچھتر برس تک جاری رہ سکتے ہیں۔

جس طرح زلزلے کی لہریں خطِ مستقیم کے بجائے آڑھی ترچھی سفر کرتی ہیں اسی طرح انقلاب کی لہریں بھی خطِ منہنی میں جاتی ہیں۔

جب سترہ سو نواسی میں بنیادی انسانی آزادیوں کا زلزلہ فرانسیسی مطلق العنانیت کو ڈھا گیا تو آس پاس کی بادشاہتوں کے رویے میں بظاہر کوئی تبدیلی نہ آئی بلکہ آفٹر شاکس سے بچنے کے لئے جبر کا شکنجہ اور کس دیا گیا۔ چنانچہ بھاپ اندر ہی اندر جمع ہوتی رہی اور اٹھارہ سو اڑتالیس کے موسمِ بہار میں قوم پرستی ، لبرل ازم اور خام سوشلزم نے پریشر ککر کا ڈھکنا اڑا دیا۔

زباں بندی، قحط سالی، بے روزگار دیہاتیوں کی شہروں کی طرف مراجعت اور نئے نئے صنعتی انقلاب کے بوجھ تلے دبے لاکھوں مزدوروں کا غصہ فرانس تا ڈنمارک اس زمانے کا فیس بک اور ٹویٹر بن گیا۔

فرانس کا نپولین دوم تخت چھوڑ کر بھاگ نکلا اور ملک میں بالغ رائے دہی کا حق پھر بحال ہوگیا۔ جرمن ریاستوں میں مزدوروں نے کارخانوں پر اور کسانوں نے کھلیانوں پر قبضہ کرلیا۔

انیس سو نواسی بھی اس دنیا کے لئے اٹھارہ سو اڑتالیس کی طرح کا سال تھا۔ اٹھارہ سو اڑتالیس میں لکھا جانے والا جو کیمونسٹ مینی فیسٹو آنے والی صدی میں انقلاب کا استعارہ بنا وہی مینی فیسٹو انیس سو نواسی تک بلائے جان تصور ہونے لگا۔

آئرلینڈ میں آلو کی تباہ حال فصل کے بھوکوں نے انگریزی حویلیوں کو آگ لگانی شروع کردی۔ ہنگری میں کسانوں کے مزاج درست کرنے کے لئے زار کی فوج نے قتلِ عام کیا۔ ڈنمارک اور ہالینڈ کے حکمرانوں نے عقل مندی دکھائی اور پارلیمنٹ کو اختیارات منتقل کرکے دستوری بادشاہت پر تکیہ کرلیا۔ سوئٹزرلینڈ میں وفاقی آئین نافذ ہوگیا۔

بعد کے برسوں میں کہیں قدامت پرست دوبارہ لوٹ آئے تو کہیں قوم پرستی کے جنون نے ایک اور آمرانہ شکل اختیار کر لی۔

لیکن اس انقلاب سے پھوٹنے والے اثرات نے دنیا کو پہلے جیسا نہیں رہنے دیا۔ جرمنی ایک طاقتور متحدہ ملک کے طور پر ابھرا۔ اٹلی کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے بھی ایک ملک کی شکل اختیار کر لی۔ چین اس انقلاب کی حد سے بظاہر بہت دور تھا لیکن تریسٹھ برس بعد اس سے متاثرہ قوم پرست نسل نے وہاں مانچو بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔ روس اٹھارہ سو اڑتالیس کے ہیجان سے بظاہر بچ گیا لیکن اٹھارہ سو اڑتالیس میں ہی لکھے جانے والے کیمونسٹ مینی فیسٹو نے اڑسٹھ برس بعد زار کی سلطنت ہی ختم کر دی۔

انیس سو نواسی بھی اس دنیا کے لئے اٹھارہ سو اڑتالیس کی طرح کا سال تھا۔ اٹھارہ سو اڑتالیس میں لکھا جانے والا جو کیمونسٹ مینی فیسٹو آنے والی صدی میں انقلاب کا استعارہ بنا وہی مینی فیسٹو انیس سو نواسی تک بلائے جان تصور ہونے لگا۔

اپریل انیس سو نواسی میں پولینڈ نے کیمونزم کے پردے میں نافذ سویت استعمار سے جان چھڑ والی۔ پھر زلزلے کی اس لہر نے ہنگری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

تیان من سکوائر میں تبدیلی کے وائرس کو چینی قیادت نے شروع میں ہی کچل دیا البتہ چینی کیمونزم کو پلاسٹک سرجری کروانی پڑ گئی۔

اس کے بعد چیکوسلواکیہ ، بلغاریہ ، مشرقی جرمنی، بالٹک ریاستیں ۔ ان سب جگہوں پر سول سوسائٹی نے پہلی مرتبہ ثابت کیا کہ وہ بغیر کسی ایک رہنما کے بھی تبدیلی کی قیادت کرسکتی ہے۔

سوائے رومانیہ ہر مذکورہ ملک بشمول سویت یونین پرانا نظام پر امن طور پر ڈھ گیا۔سوویت یونین کے پیٹ سے چودہ نئی ریاستیں پیدا ہوئیں۔ البتہ یوگو سلاویہ میں انقلاب کو نسلی قوم پرستی کے بھوت نے اغوا کر لیا اور پانچ نئی ریاستوں کی پیدائش خاصے خونی ماحول میں ہوئی۔

تیان من سکوائر میں تبدیلی کے وائرس کو چینی قیادت نے شروع میں ہی کچل دیا البتہ چینی کیمونزم کو پلاسٹک سرجری کروانی پڑ گئی۔

جس طرح زلزلے کا اثر کہیں کم کہیں زیادہ ہوتا ہے اسی طرح انقلاب کے اثرات بھی ہر جگہ مختلف ہوتے ہیں۔ انیس سو نواسی میں آنے والی تبدیلی کے سبب کہیں مارکیٹ اکانومی نے جگہ بنا لی تو کہیں پرانے کیمونسٹ نئے سرمایہ دار اور اجارہ دار بن گئے اور کہیں ایک آمریت کی جگہ دوسری آمریت نے لے لی۔

اب ایک زلزلہ سترہ دسمبر دو ہزار دس سے فیس بک اور ٹویٹر کی قیادت میں عرب دنیا کی آمریتوں اور بادشاہتوں کو ہلا رہا ہے۔

تبدیلی کا یہ عمل یوکرین، بیلا روس، منگولیا سے ہوتا ہوا ایتھوپیا، انگولا اور موزمبیق کے یک جماعتی نظام کو بھی اپنے ساتھ لے گیا اور جنوبی افریقہ کی نسل پرست گوری حکومت بھی دن گننے لگی۔

اور اب ایک زلزلہ سترہ دسمبر دو ہزار دس سے فیس بک اور ٹویٹر کی قیادت میں عرب دنیا کی آمریتوں اور بادشاہتوں کو ہلا رہا ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ سے آزادی کے بعد عرب دنیا اپنے پہلے بڑے انقلاب سے گزر رہی ہے۔

مراکش سے بحرین تک عوام بمقابلہ حکمران میچ جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہیں فوری تبدیلی آ جائے اور کہیں بظاہر روک لی جائے لیکن آفٹر شاکس اس وقت تک آتے رہیں گے جب تک تبدیلی کی سیاسی پلیٹیں ری ایڈجسٹ نہیں ہو جاتیں۔
عیدی امین سے زین العابدین بن علی تک جو بھی حکمران اب تک معزول ہوا اس کا طیارہ جدہ کا رخ کرتا رہا۔ لیکن آنے والے دنوں میں شائد یہ ممکن نہ ہو۔۔۔شائد میزبان خود بھی مہمان بن جائے۔

Sunday, January 30, 2011

Sikh Trying to Make World Record

Sikh Trying to Make World Record
.






Pakistani Traffic & Azizi Sohail Ahmad

Saturday, January 29, 2011

24 Feet Hand Made Lemozine Car

Creation of a Proud Pakistani Hand Assembled Lemozine Car


Sunday, January 23, 2011

Insects in Quran Majeed

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر کیڑے مکوڑوں کا ذکر کرتے ہوئے انسانوں کو ان سے عبرت اور نصیحت لینے کا فرمایا ہے۔
ہم یہاں ایسے ہی کیڑے مکوڑوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔









Saturday, January 22, 2011

Kya Kya Rang Bdlta Hai Zamana













Friday, January 14, 2011

گوگل اینڈرائیڈ کے لئے مترجم اطلاقیہ

گوگل اینڈرائیڈ کے لئے مترجم اطلاقیہ


گوگل نے اینڈرائیڈ فون کے لئے ایسا اطلاقیہ تیار کیا ہے جو real time میں بولی جانے والی زبان کا ترجمہ کر لیتا ہے۔ ابھی تو یہ واکی ٹاکی کی طرح کام کر رہا ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ جلد ہی یہ عام بات چیت کا بلا تاخیر ترجمہ کرنے کے قابل ہو جائے گا۔







ابھی ترجمہ کے لئے اکاون 51 زبانیں دستیاب ہیں اور یہ پندرہ 15 زبانوں کو سمجھ سکتا ہے ۔اور گوگل یقیناً دوسری زبانوں پر بھی کام کر رہا ہو گا۔
اور تصور کریں سیاحوں کے لئے کتنا مدد گار  ہو سکتا ہے۔

Sunday, January 9, 2011

سہیل احمد عزیزی کی حسب حال میں نئی نظم

جس میں اس نے پولیس ناکوں اور انٹرنیٹ چیٹنگ پر طنز کیا ہے۔سہیل احمد عزیزی کی پروگرام حسب حال بتاریخ
8جنوری 2011 کو پڑھئی گئی نئی نظم پیش خدمت ہے۔


Wednesday, January 5, 2011

عمر اچ کی رکھیا

اسے کہتے ہیں جواں دل لوگوں کی بات اور کام الگ ہوتے ہیں۔ آپ بھی اس تصویر میں دیکھ لیں۔

Saturday, January 1, 2011

کِھلتے دِل،کُھلتے خیال



کِھلتے دِل،کُھلتے خیال


محبت اِک حسین شے ہے مگر ہم اُسے نہیں جانتے

حسن کی تلاش فہم سے ہے مگر ہم اُسے نہیں مانتے


            ہم اِس دُنیا میں آتے ہیں۔ زندگی میں سیکھتے ہیں اور پھر حاصل علم دوسروں کو سِکھا کر حقیقی راہ پر دُنیا سے کنار ہ کشی فرماتے ہیں۔ایسے ہی ہم ہر برس کچھ نیا جاننے کی کوشش میں بہت کچھ اپناتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم اپنا علم نئی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ زندگی میں ہم جو کچھ پاتے ہیں۔اُس کو بالآخر بانٹ کر جانا ہے، ورنہ ہمارے بعد ورثہ بٹ جاتا ہے۔ ہر وُہ شےءجس کی فطرت بانٹنا ہے، وُہ ہمیں زندگی کی حقیقت کی طرف لیجاتی ہے۔ علم بانٹو، محبت بانٹو، خوشی بانٹو، یہی حقیقی دولت ہے، بانٹو اور بڑھاﺅ۔


            انسان عمر بھر حسن کی تلاش میں رہتا ہے۔ حسن کیا ہے؟ ہر انسان کا اپنا اِک معیار ہے۔ اطمینانِ قلب اگر حسن ہے تو تسکینِ ذہن لطفِ افکار ہے۔ نگاہئِ حسن جس کو ملی، اُسکی دُنیا ہی بدلی۔ حسن ذات سے باہر ہے، کسی شےءکی مرکوزیت میں حسن تو ہو سکتا ہے، ممکن ہے وُہ آپ کا قلبی لگاﺅ ہو۔ قلبی واردات تو آپ کو ذات سے باہر لاتی ہے اور کسی اور ذات کی طرف لیجاتی ہے اور مخلوق خدا سے محبت کرنا سکھاتی ہے۔ خلقِ خداکی محبت آپ کو اللہ کی محبت کا رستہ دکھلاتی ہے۔ اللہ سے محبت کا رشتہ جب جڑ جائے تو خوف خوف نہیں رہتے بلکہ محبت بنتے ہیں۔


            حسن کا تصور ملنا خدا کی بہت بڑی دَین ہے۔ زندگی کی حقیقت میں خوبصورت رنگ انسان کے دِلکش رویے اور خیالات ہیں جو اَمن اور سکون قائم رکھتے ہیں۔


            انسان اپنی زندگی آئیڈئیل تھیوری یا ماڈل کے تحت گزارنا چاہتا ہے۔ ہمارے فلسفہ زندگی کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم خامی کا خانہ اپنی تھیوری میں نہیں رکھتے۔ اپنے پیش کردہ ماڈل میں اگر حقیقی رنگ بھر دیں تو زندگی کو زندگی کے سبق سے سیکھا جاسکتا ہے۔


            ہم تنقیدی نگاہیں رکھتے ہیں، حالات کی بہتری حوصلہ اور رہنمائی سے ہوتی ہے۔ ہم زندگی کو بڑے ہی محدود کینوس سے دیکھتے ہیں۔ انسانی چہرہ پر موجود تاثرات کو نہیں سمجھتے۔ شک کی نگاہ سے دوسروں کو دیکھتے ہیں۔ مگر غیر جانبدار ہو کر شک دور نہیں کرتے ۔


            اکثر لوگ خود کو سیکولر کہتے ہیں۔ افسوس! میرا معاشرہ دو متضاد انتہاپرست گرہوں کی ضد کی شدت کے باعث بَٹ رہا ہے۔ کون جانے! سیکولر بننے کے لیے خود کو پہلے صوفی بنناہوتا ہے۔ لفظ صوف سے مراد کسی کے متعلق بغض ، حسد، کینہ اور نفرت دِل میں نہ رکھنا۔ اپنی مرضی مار دینا، اپنوں کی مرضی چھوڑ دینا اور حق بات کا بلا تعصب فیصلہ کرنا۔ اصل میں صوف ہے۔


            ہمارے رویے اس لیے بھی بگڑتے ہیں ہم چھوٹے دِل رکھتے ہیں اور بند نگاہوں کی طرح تنگ ذہنوں میں اُلجھے رہتے ہیں۔


            انسانی فطرت ہے کہ وُہ خواہشات رکھتا ہے، ایسے ہی خواہشات کی تکمیل غلطیوں کا مرتکب بناتی ہے۔ فطری خواہشات انسان کی معصوم خواہشات ہوتی ہے۔ ایسے ہی فطرتی غلطیاں معصوم انسانی غلطیاں ہوتی ہے۔ معصوم غلطیوں کو درگزر کریں بوقت ضرورت مصنوعی سرزنش سے غلطی کا احساس ضرور دلائیںمگر دِل کی میل صاف رکھیں۔ دِل بڑھنے لگے گا۔ برداشت آجائے گی۔


            زندگی کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھے مگر حالات کو دوسروں کی نگاہ سے دیکھے۔ ہم اختلافی مسائل کے بارے میں ایک رائے رکھتے ہیں۔ جن کے بارے میں آپ مخصوص سوچ (نفرت)رکھتے ہیں۔ اُن سے اُنکے خیالات بھی تو جانئے۔ تعصب سے پاک غیر جانبدارانہ سوچ ذہن کھولتی ہے۔ بڑھتے دِل، کُھلتے ذہن؛ بصیرت پاتے ہیں۔


گزشتہ برس میرے لفظوں نے اشعار کا روپ دھارا

نہیں جانتا ، کس کی دُعا سے میرا خیال خوب بڑھا


            قیادت کو بصیرت کو چاہیے۔ خیالات ذاتیات میں محو ہو جائیں تو خیالات کا محور بصیرت سے محروم ہوتا ہے۔ قیادت حالات کے بھنور میں دھنستی رہتی ہے۔


            حسن زندگی کو توازن دیتا ہے۔ زندگی گزارنا کوئی آئیڈئیل تھیوری نہیں۔ دوسروں کو سمجھ کر ردعمل یوں دینا کہ معاملات سلجھ جائیں۔ خوبی کو خامی کے ساتھ قبول کرنا، حسنِ سلوک ہے۔ دوست ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتے۔ ہم اُن کو خامیوں سمیت قبول کرتے ہیں۔ اُنکی خامی ہمارے لیے خامی نہیں رہتی۔


            حسن الجبرا کی ایک ایسی مساوات ہے، جس کو ہم مساوی رکھتے ہیں۔ مصور تصویر میں متوازن رنگ بھرتا ہے، شاعر شعر کا وزن مدنظر رکھتاہے، مصنف جملوں میں تواز ن لاتا ہے، گلوگار آواز کے اُتار چڑھاﺅ میں توازن رکھتا ہے، متواز ن غذا صحت لاتی ہے، متوازن گفتگو سوچ کو نکھارتی ہے، متوازن عمل شخصیت بناتے ہیں۔ انسان کا حسن عمل اور سوچ کا توازن ہے تو انسانی شخصیت خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہے۔ ایسے ہی معاشرتی مساوات معاشرے کا حسن ہے۔


            اپنی زندگی کی نئی بہار کے موقع پر گزشتہ برس کی وُہ نئی نگاہ پیش کی۔ جو مجھ کو سلطان شہاب الدین غوریؒ سے عقیدت مندانہ ملاقات کے دوران ملی۔


لوگ اُنکے مرقد کو صرف ایک مقبرہ سمجھتے ہیں۔

راہ ِ عقیدت میں جو نگاہ ملی، ہم اُس کومزار مانتے ہیں۔


            یا اللہ آج میری زندگی کا نیا برس شروع ہوچکا ہے، ہم سب پر اپنا کرم فرمانا۔ نئی راہوں کے نئے دروازے کھولنا۔ ہمارے خیالات میں حسن کی نگاہ اور محبت کا جذبہ برقرار رکھنا۔ ہماری راہ منزل میںاپنی رہنمائی جاری رکھنا۔ ہم سب کو اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنانا۔ آپ سب کو کل سے شروع ہونے والا نیاعیسوی سال نیک تمناﺅں اور دُعا کے ساتھ مبارک ہو۔


بشکریہ: فرخ نور