Thursday, October 28, 2010

Sex Worker Women.... Where They Go.........?

آج صبح اٹھ کر ناشتہ کے بعد میں نے سوچا تھوڑی سی نیٹ گردی کر لوں۔ اس دوران اپنی فیس بک کی آئی ڈی پر آئے ہوئے کمنٹس دیکھے اور اس کے بعد  میں نے ٹویٹر پر نظر دوڑائی۔
اس سب کے بعد مختلف اخبارات کی شہہ سرخیاں دیکھنے کے بعد بی بی سی کی اردو سائیٹ پر ایک مضمون پڑھا جو ریحان بستی والا نے ممبئی سے لکھا ہے اس میں اس نے جسم فروش عورتوں کے مسائل بیان کئے کہ کیسے وہ اس معاشرے میں پس رہی ہیں۔
پھر میرے زہین میں سوال ابھرا کہ کیا واقعی یہ ان کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک ظلم ہے تو ایک دفعہ میرے ضمیر نے جواب دیا ہاں یہ ظلم ہے لیکن دوسری جانب ضمیر کے ایک کونے سے آواز  آئی نہیں۔ یہ تو ان کے کرتوت ہیں جو انہیں رسوا کر رہے ہیں۔
میرے ضمیر کی سوچ شاید میرے مذہب کی وجہ سے ایسی ہوئی لیکن اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی سچا مذہب اور دین اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ عورتوں کو بازار کی زینت بنا دیا جائے اور نا ہی ہمارے اخلاقی و معاشرتی اقدار اس کی روا دار ہو سکتی ہیں۔
لیکن پھر ایسا کیوں ہے؟

پہلا سوال اٹھتا ہے کہ یہ عورتیں ایسا کیوں کرتی ہیں؟
تو اس کے جواب میں ، میں ان کی وکالت کرتے ہوئے یہ نہیں کہوں گی کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ نہیں ہر گز نہیں۔
ایسا کرنے پر اگر معاشرہ مجبور کرتا ہے تو اس میں صرف کوئی پچاس فی صد کی شمولیت ہی ہو گی ایسی عورتوں کی۔ ایسا کرنے میں ان عورتوں کی مرضی بھی شامل ہو گی۔
 ان لوگوں کو یہ کاروبار کیسے چلتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل پیار کے کھیل میں پھنس کر اپنے محبوب سے وعدہ وفا کرتے ہوئے گھر سے بھاگ تو آتی ہیں۔ لیکن پھر محبوب اپنی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں پھول چہرے ان ہوس کے پجاریوں کے مندر میں چڑھاوے کے طور پر چڑھا دئیے جاتے ہیں۔ جہاں یہ بے عقل لڑکیاں اپنے مستقبل کی تاریک راتوں میں روشن سرخ روشنیوں میں اپنے اوپر ستم کو برداشت کرتی ہیں۔


دوسرا سوال کیا حکومت کو ان کی سرپرستی کرنی چاہیے یا انہیں ختم کرنا چاہیے؟
حکومت  چاہے پاکستان کی ہو یا بھارت کی کبھی بھی عوام کی فلاح و بہبود کی طرف نہیں آتی انہیں صرف اپنی کرسیوں اور حکومت کی فکر ہوتی ہے۔
ان عورتوں کے کاروبار کے بڑھاوے میں حکومتی عمل دخل بھی کافی حد تک نظر آتا ہے۔
نام نہاد قوانین تو بنائے گئے ہیں لیکن ان کو لاگو نہیں کیا جاتا ہے۔

یہ ظلم اور بازار حسن کیسے ختم ہو سکتا ہے؟
ان عورتوں کی تعلیم و تربیت کی جاوے۔
ان عورتوں کو تکینیکی کام سکھایا جاوے۔
ان عورتوں کو معاشرے میں عزت دارانہ مقام دیا جائے۔
حکومت ان عورتوں کی مالی مدد کرے
ان عورتوں سے جنم لینے والے بچوں کی اعلٰی اور معیاری تعلیم و تربیت کی جائے تاکہ وہ معاشرے میں اعلیٰ کردار  ادا کریں۔

لکھنے کو تو اس موضوع پر بہت کچھ ہے لیکن اتنا ہی بہت ہے ابھی اور بھی کام کرنے ہیں۔



جسم فروشی کے بازار کی صورت بدل رہی ہے


ممبئی میں جسم فروشی کا علاقہ بہت سے تعمیراتی ٹھیکداروں کی نظر میں ہے
ممبئی کا ریڈ لائٹ علاقہ فارس روڈ ، کماٹی پورہ، شکلا جی سٹریٹ اور بچو سیٹھ کی واڑی جہاں کبھی ایشیاء کا سب سے بڑا اور قدیم جسم فروشی کا بازار ہوا کرتا تھا، اب بہت جلد یہاں بلند و بالا عمارتوں کا جال نظر آئے گا۔
ایک طرف حکومت مہاراشٹر کا ہاؤسنگ محکمہ یہاں کی مخدوش اور خستہ حال عمارتوں کو منہدم کر کے یہاں کی جسم فروش خواتین کی آبادکاری کے لیے سروے کرا رہا ہے تو دوسری جانب نجی بلڈرز پورے علاقے کو نئے سرے سے ترقی دینے کی تگ و دو میں ہیں۔ وجہ؟ ممبئی جیسے شہر میں جہاں زمین نایاب ہو چکی ہے وہیں تقریبا دو سو پچاس سکوئر میٹر پر پھیلی یہ جگہ بلڈروں کی کشش کا سبب بنی ہے۔
یہاں زیادہ تر ایک منزلہ عمارتیں ہیں جن میں چھوٹی چھوٹی کھولیاں ہیں یعنی چھوٹے چھوٹے کمرے جو دس مربع فٹ سے بھی کم رقبہ میں بنے ہیں۔ ان میں سیکس ورکرز کو ایک ایک پلنگ کی جگہ دی جاتی ہے اور اس کمرے کی مالکن ان لڑکیوں سے ماہانہ کرایہ وصول کرتی ہے۔ یوپی بہار اور مغربی بنگال سے ممبئی لائی گئی لڑکیوں سے کاروبار کرانے والے دلال بھی پیسہ کمانے میں لگے رہے اس لیے اس علاقے اور یہاں کے مکانات خستہ حال ہونے لگے۔
جسم فروشی کے کاروبار والے ان علاقوں سے کبھی شرفاء گزر نے سے بھی پرہیز کیا کرتے تھے اب چونکہ علاقے کی صورت بدل رہی ہے اس لیے لوگوں نے بند ہوتے قحبہ خانوں کی جگہ دکانیں کھول لی ہیں۔
صرف کماٹی پورہ میں چھ سو اٹھاون بلڈنگیں ہیں جن میں سے ایک سو پانچ کے قریب گر چکی ہیں اور پچپن انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔ اس پورے علاقے میں پندرہ ہزار کے قریب خاندان آباد ہیں ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اس پیشے سے تعلق نہیں رکھتے لیکن چونکہ وہ برسوں سے یہاں آباد ہیں اس لیے یہ علاقہ چھوڑ کر جانا بھی نہیں چاہتے۔
انگریزوں کے دور سے آباد اس بازار میں کبھی انگریز یورپین جسم فروش عورتیں رونق ہوا کرتی تھیں۔ ان علاقوں میں جسم فروشی کے علاوہ مجرے اور قوالی کی محفلیں سجا کرتی تھیں۔ ہندستان ہی نہیں دنیا کے کونے کونے سے لوگ یہاں تفریح کے لیے آتے تھے۔ یہاں سورج ڈھلتے ہی دن نکل جاتا تھا اور سورج کے سر اٹھاتے ہی رات کا سناٹا۔
طبلے کی تھاپ ، گھنگرؤں کی آواز اور فلمی گیتوں کی دھن پر رقص کرتی حسینائیں۔ کبھی انڈرورلڈ کا اڈہ بنی بچو سیٹھ کی واڑی، تو کہیں اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ایک رات کی قمیت محض پچاس روپیہ وصول کرنے والی ماں۔

جنسی دھندا کرنے والی عورتیں اپنی جگہ چھننے سے پریشان ہیں
لیکن اب حالات بدلتے جا رہے ہیں۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے ریکارڈ کے مطابق یہاں انیس سو بانوے میں تقریبا پچاس ہزار جسم فروش عورتیں تھیں لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر محض بارہ سو سے ڈیڑھ ہزار ہو کر رہ گئی ہے۔
بی ایم سی کا دعوی ہے کہ یہاں ایچ آئی وی اور ایڈز بیداری مہم چلانے کی وجہ سے ان عورتوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن علاقے میں عورتوں کے ایک دلال کے مطابق ایڈز کی وجہ سے کئی عورتوں کی جانیں چلی گئیں۔
پولیس کے مستقل چھاپوں کی وجہ سے بھی یہاں ان عورتوں کا جینا دوبھر ہو گیا تھا اس لیے بہت تو یہاں سے ممبئی کے دوسرے علاقوں میں چلی گئی ہیں، جبکہ ایڈز کے خوف نے گاہک بھی کم کر دیے۔
علاقے کے بیشتر دلالوں نے کاروبار کم ہونے کی وجہ سے یہاں یا تو سی ڈی ڈی وی ڈی کی دکانیں کھول لی ہیں یا پھر ویڈیو پارلر یا ویڈیو گیمز کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔
اگر یہاں عمارتیں بنتی ہیں تب یہاں کی عورتوں کو کہیں منتقل کرنا ہو گا اور عمارتیں بن جاتی ہیں تب ان کے ساتھ ایک ہی بلڈنگ میں رہنے کے لیے دوسرے خاندان راضی نہیں ہوں گے۔ ' ہم جیسوں کے ساتھ کون رہنا چاہے گا۔ '
ایک سیکس ورکر
ان علاقوں سے کبھی شرفاء گزر کرنے سے بھی پرہیز کرتے تھے اب چونکہ علاقے کی صورت بدل رہی ہے اس لیے لوگوں نے بند ہوتے قحبہ خانوں کی جگہ دکانیں کھول لی ہیں۔
مہاراشٹر کے ہاؤسنگ منسٹر سچن اہیر نے اس علاقے کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ان عورتوں کی آبادکاری کی جائے اس لیے ایک افسر کی تقرری کی گئی ہے تاکہ وہ یہاں کا سروے کرے اور حالات سے آگاہ کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ دیکھنے کے بعد ہی حکومت فیصلہ کرے گی کہ آیا یہاں حکومت بلڈنگوں کی تعمیر کرے یا پھر نجی بلڈروں کے حوالے کر دے۔
یہاں عمارتیں بنانا اور ان عورتوں کی آبادکاری اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ایک سیکس ورکر کا کہنا تھا کہ اگر یہاں عمارتیں بنتی ہیں تب یہاں کی عورتوں کو کہیں منتقل کرنا ہو گا اور عمارتیں بن جاتی ہیں تب ان کے ساتھ ایک ہی بلڈنگ میں رہنے کے لیے دوسرے خاندان راضی نہیں ہوں گے۔ ' ہم جیسوں کے ساتھ کون رہنا چاہے گا۔ '

تعمیراتی کمپنیاں نہیں چاہتی ہیں کہ جنسی کاروبار کرنے والی عورتیں اس علاقے میں رہیں
بلڈروں کے لیے الگ مسئلہ ہوگا کہ اگر یہ سیکس ورکرز یہاں رہیں گی تو کاروباری دفاتر بھی نہیں بن سکیں گے۔
نجی بلڈر ڈی بی ریالٹی اس علاقے کو ڈیولپ کرنے کے لیے سب سے آگے ہے۔ اس فرم کے ایک ڈائرکٹر نبیل پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سلسلہ میں حکومت کے ساتھ ان کی فرم کی گفتگو جاری ہے۔ پٹیل کے مطابق ان کی فرم ان عورتوں کی آبادکاری کرے گی ان کے لیے سلائی کی کلاسیس کھولی جائیں گی انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور خودکفیل بنانے کے لیے سینٹر بنائے جائیں گے اور ان ڈیڑھ ہزار عورتوں کے لیے علیحدہ علاقے میں بلڈنگیں تعمیر کی جائیں۔ پٹیل کے مطابق یہ عورتیں بھی نئی اور اچھی زندگی گزارنے کی خواہش مند ہیں۔
کسی بھی جگہ کو ڈیولپ کرنے کے لیے وہاں کے مقامی رہائشیوں کا پچھتر فیصد لوگوں کا راضی ہونا لازمی ہے لیکن ابھی حالات یہاں مکمل طور پر علاقے کو ڈیولپ کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ بیشتر اس بات سے واقف ہیں کہ ان علاقوں سے اگر انہیں نکال دیا جاتا ہے تو وہ اپنا کاروبار کہیں اور سے نہیں کر سکتے۔ اس لیے وہ حامی بھرنے سے کترا رہے ہیں۔ مقامی ممبر اسمبلی امین پٹیل کے مطابق ویسے بھی ان علاقوں میں اب سیکس ورکرز نام کے برابر ہیں اور جو ہیں ، حکومت ان کی مدد کرنا چاہتی ہے اس لیے علاقے کو ترقی دینے کے منصوبے کی راہ میں کچھ خاص رکاوٹ نہیں ہے۔

0 comments: