Monday, February 28, 2011

Pak-US joint army operation video leaked

افغانستان میں موجود امریکی افواج پاکستانی علاقوں کے اندرآکردونوں ملکوں کی سرحدوں پرتعینات پاکستانی پیراملٹری فورسز کے ساتھ مشترکہ کارروائیاں کرتی ہیں۔ان مواقع پرامریکی فوج کےلئے کام کرنے والی نجی سیکورٹی کمپنیوں کے اہلکاربھی ان میٹنگز اور کارروائیوں کی منصوبہ بندی کے عمل میں شریک رہتے ہیں۔



پاکستان کے علاقے مہمند ایجنسی سے منسوب ایک ویڈیو کےمنظرعام پر آنے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ دونوں ملکوں کی افواج اگر چہ عوامی سطح پرخود کو الگ الگ دائروں تک محدود رکھتی ہیں لیکن عملی طورپرایسا نہیں ہے بلکہ پاکستانی اورامریکی فورسزمشترکہ کارروائیاں کرتی اورامریکییوں کاپاکستانی علاقوں میں آنا معمول کی بات ہے۔

ماضی میں امریکی کمانڈوز پاکستان کے قبائلی علاقے میں دو زمینی کارروائیاں بھی کر چکی ہیں جن میں سے ایک میں پاکستان کی سرحدی چوکی پرتعینات فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ دوسری کارروائی خیبر ایجنسی کے سرحدی گائوں میں کی گئی تھی  جس میں سویلین ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ان دونوں کارروائیوں کی ابتداء میں پاکستانی فوج کے میڈیاریلیشن کے ذمہ دار ادارے آئی ایس پی آر نے ان واقعات کی تردید کی تھی۔تاہم دوسری کارروائی پرامریکہ سے شدید احتجاج کیاگیاتھا جس کے تحت پاکستان کے راستے افغانستان میں تعینات امریکی وناٹوفورسز کو جانے والی سپلائی لائن معطل کر دی گئی تھی۔

ان دونوں کارروائیوں کے موقع پر افغانستان کی جانب سے تواتر کے ساتھ پاکستان پریہ الزام لگایا جاتا رہا تھا کہ عسکریت پسند اور طالبان کے حمایتی عناصر ناٹوفورسز کے بعد کارروائیاں کر کے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پناہ لیتے ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں تیار کی گئی ویڈیومبینہ طورپرپاکستانی قبائلی پٹی مہمند ایجنسی کےعلاقے SORAN DARRA کی ہے۔جہاں 9کےقریب امریکی فوجی ایک سویلین لباس میں ملبوس امریکی نظرآنے والے فرد کے ساتھ پاکستانی فورسز سے میٹنگ میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اس سے قبل جمعہ کوپاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیر مملکت برائے خارجہ حناربانی کھر یہ تسلیم کر چکی ہیں کہ پاکستان میں851 امریکی موجود ہیں جن میں سے سفارتی اہلکار554اورغیرسفارتی عملہ 297کی تعداد میں ہے۔ حالیہ ویڈیو بنانے کے انداز اورتیاری کے دوران موقع پرموجود پاکستانی وامریکی فوجیوں کے ردعمل سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ ریکارڈنگ کرنے والے کا تعلق یہیں موجود فوجیوں سے ہے۔ موبائل کیمرے سے بنائی گئی ویڈیو کی طوالت 3منٹ سے زائد کی ہے۔

مبینہ طور پر مہمند ایجنسی میں عسکری آپریشن سے قبل منصوبہ بندی کےلئے ہونے والی مشترکہ میٹنگ کی ویڈیو میں پاکستان کی سرحدی فورس فرنٹئیرکانسٹیبلری کے اہلکار اپنے کیپٹن رینک کے کمانڈر کے ساتھ وہاں موجود دکھائےگئے ہیں۔ایک گروپ میں بیٹھے ہوئے دونوں ملکوں کے فوجی باہم گفتگو میں مصروف ہیں جب کہ سویلین لباس میں موجود کسی نجی سیکورٹی ایجنسی کا اہلکار دکھنے والا فرد اس دوران مسلسل اپنے پاس موجود کاغذات پرکچھ نوٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

قبل ازیں پاکستان کی خارجہ پالیسی اورپاک امریکہ تعلقات پر نظررکھنے والے مبصرین یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک میں 5ہزار سےزائد امریکی اہلکارموجود ہیں جن میں سے بیشترامریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی اورحکومت پاکستان کی خصوصی اجازت کے بعد حاصل ہونے والے ویزہ پرپاکستان آئے ہیں۔

مبینہ عسکری آپریشن سے قبل تیار کی گئی ویڈیو کے دوران امریکی فوجیوں کےلئے قبائلی علاقوں میں مہمان نوازی کی علامت کے طور پر معروف قہوہ لایا جاتا ہے۔پاکستانی فوج سے کی جانے والی میٹنگ پر مبنی اس ویڈیو کی تیاری کسی پاکستانی چیک پوسٹ کے قریب کی گئی محسوس ہوتی ہے ۔تین منٹ ستائیس سیکنڈ کی طوالت رکھنے والی اس ویڈیو کی ریکارڈنگ میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ دو امریکی اورچار کے قریب پاکستانی اہلکار پہاڑی چوٹی پرکھڑے اردگرد کے علاقے پرنظررکھےہوئے ہیں جب کہ ان کے درمیان میں زمین پر بیٹھے باقی افراد ایک دائرے کی صورت میں مسلسل میٹنگ کر رہے ہوتے ہیں۔

27جنوری کولاہور میں دو پاکستانیوں کے قتل کرنے کے بعد گرفتار ہونے والے مائیکل جارج فرنانڈس عرف ریمنڈڈیوس کے متعلق بھی یہ اطلاعات میڈیا رپورٹس کا حصہ بن چکی ہیں کہ پاکستان میں انتہاپسند گروپوں پر نظر رکھنے کے ساتھ اس کی ذمہ داری امریکی مفادات کے تحفظ کےلئے نیٹ ورکس کاقیام بھی تھا۔

پاکستانی وامریکی فوجیوں کی مشترکہ ویڈیو منظرعام پرآنے کے بعد ایک بار پھر یہ سوال سامنے آیا ہے کہ حکومت پاکستان عوامی سطح پرتوامریکی کارروائیوں کی مخالفت کرتی ہے لیکن درپردہ امریکی ایماء پرجاری جنگ کا اہم حصہ ہے۔



امریکی وپاکستانی افواج کی جانب سے کئے جانے والے مشترکہ یا انفرادی آپریشنز میں عسکریت پسندوں اور اتحادی افواج کے خلاف برسرپیکارطالبان کوختم کرنے کادعوی کیا جاتا رہاہے لیکن آزاد ذرائع اوراقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں 2001ء کے حملے کے بعد سے مرنے والوں کی بڑی تعدادعام سویلینزکی ہے۔گزشتہ برس کے حوالے سے جاری کی جانے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ 70فیصد سے زائد ہلاکتیں سویلینز کی ہیں۔

قبل ازیں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ حمید گل کا یہ کہناتھاکہ ریمنڈڈیوس ایشو پرسامنے آنے والی معلومات اور امریکی طرز عمل نے یہ طے کر دیا ہے کہ پاکستان کوعالمی قوت کے ساتھ اپنے تعلقات اور اس کے مفادات کی تکمیل کےلئے لڑی جانے والی جنگ میں اپنے کردار پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔

آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشااورسی آئی اے کے سربراہ لیون پینٹا کے درمیان ہونے والے ٹیلیفونک رابطے میں امریکہ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہےکہ وہ پاکستان میں موجود اپنے اہلکاروں کو بے نقاب کرے لیکن اب تک کھلے عام کی جانے والی مشترکہ کارروائیوں کے متعلق ریکارڈ کی سطح پرکوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں سی آئی اے کے ایک ہزار سے زائد ایسے ایجنٹس کے متعلق اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں جنیں سویلین حکومت نے پاکستانی ایجنسی کو اوورکراس کر کے ملک میں آنے کی اجازت دی ہے۔
آرٹیکل کا ربط

0 comments: