Tuesday, February 22, 2011

زلزلہ کس سے رکا؟

زلزلہ کس سے رکا !





کسی بڑے زلزلے کے آفٹر شاکس عموماً تین ماہ تک آتے رہتے ہیں۔لیکن بڑے انقلاب کے آفٹر شاکس پچاس سے پچھتر برس تک جاری رہ سکتے ہیں۔

جس طرح زلزلے کی لہریں خطِ مستقیم کے بجائے آڑھی ترچھی سفر کرتی ہیں اسی طرح انقلاب کی لہریں بھی خطِ منہنی میں جاتی ہیں۔

جب سترہ سو نواسی میں بنیادی انسانی آزادیوں کا زلزلہ فرانسیسی مطلق العنانیت کو ڈھا گیا تو آس پاس کی بادشاہتوں کے رویے میں بظاہر کوئی تبدیلی نہ آئی بلکہ آفٹر شاکس سے بچنے کے لئے جبر کا شکنجہ اور کس دیا گیا۔ چنانچہ بھاپ اندر ہی اندر جمع ہوتی رہی اور اٹھارہ سو اڑتالیس کے موسمِ بہار میں قوم پرستی ، لبرل ازم اور خام سوشلزم نے پریشر ککر کا ڈھکنا اڑا دیا۔

زباں بندی، قحط سالی، بے روزگار دیہاتیوں کی شہروں کی طرف مراجعت اور نئے نئے صنعتی انقلاب کے بوجھ تلے دبے لاکھوں مزدوروں کا غصہ فرانس تا ڈنمارک اس زمانے کا فیس بک اور ٹویٹر بن گیا۔

فرانس کا نپولین دوم تخت چھوڑ کر بھاگ نکلا اور ملک میں بالغ رائے دہی کا حق پھر بحال ہوگیا۔ جرمن ریاستوں میں مزدوروں نے کارخانوں پر اور کسانوں نے کھلیانوں پر قبضہ کرلیا۔

انیس سو نواسی بھی اس دنیا کے لئے اٹھارہ سو اڑتالیس کی طرح کا سال تھا۔ اٹھارہ سو اڑتالیس میں لکھا جانے والا جو کیمونسٹ مینی فیسٹو آنے والی صدی میں انقلاب کا استعارہ بنا وہی مینی فیسٹو انیس سو نواسی تک بلائے جان تصور ہونے لگا۔

آئرلینڈ میں آلو کی تباہ حال فصل کے بھوکوں نے انگریزی حویلیوں کو آگ لگانی شروع کردی۔ ہنگری میں کسانوں کے مزاج درست کرنے کے لئے زار کی فوج نے قتلِ عام کیا۔ ڈنمارک اور ہالینڈ کے حکمرانوں نے عقل مندی دکھائی اور پارلیمنٹ کو اختیارات منتقل کرکے دستوری بادشاہت پر تکیہ کرلیا۔ سوئٹزرلینڈ میں وفاقی آئین نافذ ہوگیا۔

بعد کے برسوں میں کہیں قدامت پرست دوبارہ لوٹ آئے تو کہیں قوم پرستی کے جنون نے ایک اور آمرانہ شکل اختیار کر لی۔

لیکن اس انقلاب سے پھوٹنے والے اثرات نے دنیا کو پہلے جیسا نہیں رہنے دیا۔ جرمنی ایک طاقتور متحدہ ملک کے طور پر ابھرا۔ اٹلی کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں نے بھی ایک ملک کی شکل اختیار کر لی۔ چین اس انقلاب کی حد سے بظاہر بہت دور تھا لیکن تریسٹھ برس بعد اس سے متاثرہ قوم پرست نسل نے وہاں مانچو بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔ روس اٹھارہ سو اڑتالیس کے ہیجان سے بظاہر بچ گیا لیکن اٹھارہ سو اڑتالیس میں ہی لکھے جانے والے کیمونسٹ مینی فیسٹو نے اڑسٹھ برس بعد زار کی سلطنت ہی ختم کر دی۔

انیس سو نواسی بھی اس دنیا کے لئے اٹھارہ سو اڑتالیس کی طرح کا سال تھا۔ اٹھارہ سو اڑتالیس میں لکھا جانے والا جو کیمونسٹ مینی فیسٹو آنے والی صدی میں انقلاب کا استعارہ بنا وہی مینی فیسٹو انیس سو نواسی تک بلائے جان تصور ہونے لگا۔

اپریل انیس سو نواسی میں پولینڈ نے کیمونزم کے پردے میں نافذ سویت استعمار سے جان چھڑ والی۔ پھر زلزلے کی اس لہر نے ہنگری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

تیان من سکوائر میں تبدیلی کے وائرس کو چینی قیادت نے شروع میں ہی کچل دیا البتہ چینی کیمونزم کو پلاسٹک سرجری کروانی پڑ گئی۔

اس کے بعد چیکوسلواکیہ ، بلغاریہ ، مشرقی جرمنی، بالٹک ریاستیں ۔ ان سب جگہوں پر سول سوسائٹی نے پہلی مرتبہ ثابت کیا کہ وہ بغیر کسی ایک رہنما کے بھی تبدیلی کی قیادت کرسکتی ہے۔

سوائے رومانیہ ہر مذکورہ ملک بشمول سویت یونین پرانا نظام پر امن طور پر ڈھ گیا۔سوویت یونین کے پیٹ سے چودہ نئی ریاستیں پیدا ہوئیں۔ البتہ یوگو سلاویہ میں انقلاب کو نسلی قوم پرستی کے بھوت نے اغوا کر لیا اور پانچ نئی ریاستوں کی پیدائش خاصے خونی ماحول میں ہوئی۔

تیان من سکوائر میں تبدیلی کے وائرس کو چینی قیادت نے شروع میں ہی کچل دیا البتہ چینی کیمونزم کو پلاسٹک سرجری کروانی پڑ گئی۔

جس طرح زلزلے کا اثر کہیں کم کہیں زیادہ ہوتا ہے اسی طرح انقلاب کے اثرات بھی ہر جگہ مختلف ہوتے ہیں۔ انیس سو نواسی میں آنے والی تبدیلی کے سبب کہیں مارکیٹ اکانومی نے جگہ بنا لی تو کہیں پرانے کیمونسٹ نئے سرمایہ دار اور اجارہ دار بن گئے اور کہیں ایک آمریت کی جگہ دوسری آمریت نے لے لی۔

اب ایک زلزلہ سترہ دسمبر دو ہزار دس سے فیس بک اور ٹویٹر کی قیادت میں عرب دنیا کی آمریتوں اور بادشاہتوں کو ہلا رہا ہے۔

تبدیلی کا یہ عمل یوکرین، بیلا روس، منگولیا سے ہوتا ہوا ایتھوپیا، انگولا اور موزمبیق کے یک جماعتی نظام کو بھی اپنے ساتھ لے گیا اور جنوبی افریقہ کی نسل پرست گوری حکومت بھی دن گننے لگی۔

اور اب ایک زلزلہ سترہ دسمبر دو ہزار دس سے فیس بک اور ٹویٹر کی قیادت میں عرب دنیا کی آمریتوں اور بادشاہتوں کو ہلا رہا ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ سے آزادی کے بعد عرب دنیا اپنے پہلے بڑے انقلاب سے گزر رہی ہے۔

مراکش سے بحرین تک عوام بمقابلہ حکمران میچ جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہیں فوری تبدیلی آ جائے اور کہیں بظاہر روک لی جائے لیکن آفٹر شاکس اس وقت تک آتے رہیں گے جب تک تبدیلی کی سیاسی پلیٹیں ری ایڈجسٹ نہیں ہو جاتیں۔
عیدی امین سے زین العابدین بن علی تک جو بھی حکمران اب تک معزول ہوا اس کا طیارہ جدہ کا رخ کرتا رہا۔ لیکن آنے والے دنوں میں شائد یہ ممکن نہ ہو۔۔۔شائد میزبان خود بھی مہمان بن جائے۔

0 comments: