Friday, November 12, 2010

Section 144 is imposed on Sugar Luxury

عوام اور حکمرانوں بلکہ خادمین عوام کی آپ لوگوں نے پہلے بھی بہت سی ایسی کہانیاں سنی ہوں گی۔ جو میں ابھی بیان کرنے جا رہی ہوں۔

کہتے ہیں کسی ملک کی ملکہ اپنے ملکی دورے پر نکلی اس نے دیکھا لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہو گئی ہر طرف سے مرد و زن ہاتھ ہلا رہے ہیں۔بچے رو رہے ہیں اور سیکیورٹی حسار کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہین۔ ملکہ اپنے وزیر خاص سے پوچھا پہلے ایسے تو کبھی نہیں ہوا کہ لوگوں نے ایسا استقبال کیا ہو۔ وزیر نے کہا ملکہ عالیہ یہ لوگ روٹی نا ملنے کا شکوہ کر رہے ہیں۔ تو ملکہ نے بہت معصومانہ سا جواب دے دیا۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں۔
اسی طرح ہمارے جنرل صاحب کے دور میں جب ملک احتساب کے عمل سے گزر رہا تھا اور حکمرانوں کے ایوانوں میں کرسی پر پاوں جمانے کے لالے پڑے ہوئے تھے۔تو اس وقت کسی وزیر با ترکیب نے جناب جنرل کو ثقافت کے فروغ کے نام پر تھیڑوں میں لچر پن کے اضافے پر توجہ دینے کو کہا ہے  تا کہ عوام کو کسی اور طرف لگا لیں۔ اور ساتھ ہیں میراتھن ریسز کا آغاز کر دیا۔ جس میں مرد و عورت اکٹھے ہماری روایات کو اپنے پاوں تلے کچلنے کے لئے بھاگتے۔ جنرل صاحب سے کسی نے سوال کیا؟ سر یہ جو ایسے واہیات مناظر ٹی وی چینلز پر چل رہے ہیں۔ ایسے نہیں ہونے چاہیے تو انہوں نے بے ساختہ کہا تو عوام وہ چینل نا دیکھے۔

اسی طرح گزشتہ دنوں ہمارے وفاقی وزیر پیدوار نے ایک اخباری بیان میں کہا ہے کہ ۔ چینی کا استعمال عیش و عسرت کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس لئے عوام اس سے اجتناب کریں۔
اور وزیر موصوف نے اپنی اس بات کو سچا ثابت کرنے کے لئے اور اس غریب ملک کو جو کہ عیا شی چینی کا متحمل نہیں ہو سکتا  کی عوام پر چینی پر دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا ہے۔ اور چینی کی قیمت لگ بھگ 144 کے قریب کر دی ہے۔ تا کہ کوئی شخص اس عیاشی کو نا کر پائے۔
عوام چینی چینی کرتی ہے۔
عوام چینی کو ترستی ہے۔
اب وزیر موصوف نے چینی پر تو دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا ہے آئیے ہم اپے گریبان پر زرا نظر ڈالیں ۔ لیکن یہ وقت نظر ڈالنے کا نہیں اپنے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا ہے اور اپنا محاسبہ کرنے کا ہے۔ کیا چینی ہماری زندگی کے لئے اتنی اہم ہو گئی ہے کہ ہم اس عیاشی کو ترک نا کر سکیں۔
چینی کا استعمال کہاں کہاں کرتے ہیں؟ آپ دن میں پانچ بار چائے پیتے ہیں تو دو چمچ کی جگہ ایک چمچ کر لیں۔ ملک کی حکومت پر احسان کر کے برائے مہربانی آپ چائے کے کپ بھی 3 عدد کر لیں۔ جس سے آپ کے بچائے ہوئی چینی کسی دوسرے ایسے مریض کے کام آجائے جو آپ کی طرح چائے پینے کے اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہو۔
چینی کا استعمال میٹھی ڈشز میں ہوتا ہے حضرات آپ لوگوں کو کھانے کے بعد میٹھا کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو حکومت  کے کندھوں پر  کیوں اتنا بوجھ ڈال رہے ہیں۔ بیچاری حکومت کے بس میں کیا ہے جو وہ آپ کو چینی فراہم کر سکے وہ یہاں آپ کے مسائل حل کرنے تھوڑا آئی ہے۔ کسی کو اپنے سوئس اکاونٹ بھرنے کے لئے بار بار چائنہ جانا پڑتا ہے تو کسی کو اپنی کرسی بچانے کے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ میٹھے بول بولنے پڑتے ہیں۔ آپ لوگوں کے میٹھے کا شوق پورا کرنے کے لئے میں نے ایک چیز سوچی ہے۔جب دستر خوان پر بیٹھے ہوں کھا نا کھا چکے ہوں تو سب لوگ ایک چمچ چینی کا لے کر اسے ایک بڑی پلیٹ میں ڈال کر ایک دانہ دانہ کر کے کھائیں آپ کی طلب بھی پوری ہو جائے گی اور ملک بھی ایسے بحرانوں سے بچ جائے گا۔
حکومت تو چینی کی قیمتوں پر اس قدر کنٹرول کر رہی ہے۔ اس کا بس نہیں چل رہا ہے۔ وہ چینی جو 24 روپے کلو بکتی تھی آج عوام 124 روپے کو بھی ترس رہے ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے تو اپنا حق ادا کر دیا چاہے دکھاوے کا ہی کیا ہے۔ مجھے شرم آتی ہے یہ کہنے پر کہ ہماری عدلیہ آزاد ہو گئی ہے۔ جہاں عدلیہ کاحکم ہی نا مانا جائے وہ عدلیہ نہیں ہوتی ایک تماشہ گاہ ہوتا ہے جہاں ایک بات کہہ دی گئی ہو۔ اور دوسروں نے اسے ہنس کر بھلا دیا ہو۔ جناب چیف جسٹس نے چینی کی قیمت مقرر کر کے اس عوام پر احسان تو کر دیا لیکن اس پر عملدرآمد کروانے کے لئے کوئی نئے سرے سے سو موٹو ایکشن نا لیا جبکہ انہیں تو چاہیے تھا کہ جیسے این آر او پر عمل درآمد کیس چلایا۔ ایسے ہی عوام سے متعلق اس کیس پر بھی عمل درآمد کے لئے ایک سو موٹو ایکشن لے لیں۔
رحمان ملک صاحب جو کراچی میں جاتے ہیں تو وہاں سکون ہو جاتا ہے۔ اور جب کراچی سے نکلتے ہیں تو وہاں قیامت آجاتی ہے۔ موصوف نے زخیرو اندوزوں سے کہا ہے دو دن میں سٹاک کی ہوئی چینی باہر نکالو۔ بہت ہو گئی اب ۔ اتنے دن سے نوٹ کما لئے ہیں آپ لوگوں نے جو کسر رہ گئی ہے وہ بھی ان دو دنوں میں پوری کر لو اور پھر عوام پر ترس کھاتے ہوئے انہیں چینی کے کچھ دانے دکھا دو۔

جناب نوازشریف نے صدر زرداری صاحب کو خط لکھا ہے کہ عوام کی اس عیاشی کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام پر ترس کھاو۔ اور عوام کی طرف دیکھو۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ایوان صدر میں جو بندہ بیٹھتا ہے اس کی آنکھیں نہیں ہیں۔ وہ دیکھتا نہیں ہے۔ یہ وہ شیر ہے بوقت ضرورت جب خود جال میں پھنسا ہو تو چوہے کی مدد لینے کے لئے بھی نہیں کتراتا اور  جب اس چوہے کی مدد کرنی ہو تو اس کی دھاڑ سے ایوان حکمرانی کے تخت پر سوئے ہوئے وزیر اعظم کو صبح 6 بجے اعلان کرنا پڑتا ہے۔
لیکن جب عوام کی مدد کی باری آتی ہے تو یہ شیر سو جاتا ہے۔  یا نیند میں ہی دھاڑ دیتا ہے۔ کہ عوام کے مسائل حل کرو۔
میرے خیال سے اس بھی زیادہ بدتر حالات ہونے چاہیں۔ جب ایک گھٹا ٹوپ اندھیرا چھائے گا تو پھر ہی روشنی کی طرف سفر شروع ہو گا۔ ابھی تو ہم رات کے 11 بجے والے وقت میں ہیں۔ ابھی تو 12 بجنے کا انتظار ہے۔ پھر نیا دن شروع ہوگا۔ اندھیرا اپنے عروج سے زوال کی طرف آئے گا۔ تو روشنی ہو گی۔
ایسے ہی تھوڑے سے اور حالات خراب ہوں گے تو یہ عوام اپنی نیند سے جاگے گی۔ یہ عوام اپنے اندر خود لیڈر پیدا کرے گی ۔ یہ عوام خود مختار ہو گی۔ ابھی انقلاب کے لئے اور برے حالات کی ضرورت ہے۔ خدارا وہ وقت جلد آجائے اور اس حکومت کی مدت میں مزید اضافہ ہو تا کہ یہی حکومت بحران کھڑی کرتی جائے اور عوام مزید اندھیروں میں تیزی کے ساتھ بڑھتی جائے۔ اور انقلاب کا راستہ ہمیں نظر آئے۔

0 comments: