Monday, November 22, 2010

295 C Article in Constitution of ُPakistan

پاکستان کا قیام 14 اگست 1947 کو عمل میں آیا۔ لیکن اس سے پہلے ہم لوگ ایک قوم تھے۔ ہماری ایک شناخت تھی۔ ہماری اپنی روایات اور رسومات تھیں۔ جو کہ عالمگیر مذہب اسلام کے سنہری اصولوں اور قوانین کے تحت تھیں۔
پاکستان کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے اس لئے قربانیاں دیں کہ وہ ایک الگ مملکت حاصل کر کے وہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک بہتر معاشرہ قائم کر سکیں اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق ڈھال سکیں۔
مذہب اسلام کو پاکستانی آئین میں ملک کا قومی مذہب قرار دیا گیا۔ کیونکہ یہاں تقریبا 96 فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
اور آج 2010 تک تمام حکومتوں اور تمام آئینی ترامیم کے باوجود یہ قائم و دائم ہے۔
مذہب اسلام کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا۔ پھر اس ملک کے آئین کو بنانے کے لئے اس میں تمام قوانین کا اسلام کے مطابق ہونا لازمی قرار دیا گیا۔
کیونکہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے۔ جو تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادانہ زندگی گزارنے اور مذہبی معاملات پر آزادی دیتا ہے۔ اسلام کی رو سے تمام انسان برابر ہیں۔ اسلام تمام پیغمبروں اور نبیوں کے احترام کا حکم دیتا ہے۔
اللہ تعالی خود فرماتا ہے۔ کہ تم ان کے خداوں کو گالیاں نہ دو، کہیں وہ انجانے میں تمہارے خدا کو گالی نہ دیں۔
تمام مذہبی ہستیوں ، نبیوں اور پیغمبروں کے احترام اور ان کی حُرمت کو یقینی بنانے کے لئے اسلام نے سختی سے حکم فرمایا ہے۔
اسی مقصد کے لئے مملکت خدا داد پاکستان میں آئین میں ایک آرٹیکل شامل کیا۔ اس مشہورزمانہ آرٹیکل 295c
کے مطابق تمام نبیوں اور رسولوں کے احترام کو یقنی بنانے کے لئے ۔ ایک سزا تجویز کی گئی ہے۔ جس کے تحت جرم ثابت ہوے پر مجرم کو سزائے موت دی جا سکے۔ تا کہ کوئی دوسرا شخص اس قسم کی قبیح حرکت کا متحمل نہ ہو سکے۔
پاکستانی آئین کے مطابق کسی غیر مسلم کو جج بنانے سے روکا نہیں گیا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں اقلیتوں اور غیر مسلموں کو برابر شہری حقوق حاصل ہیں۔
1960 میں ایک عیسائی جج ایلون رابرٹ نے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا عہدہ سنبھالا۔ اسی طرح ایک اور غیر مسلم جج رانا بھگوان داس 2007 میں سپریم کورٹ کے قائمقام چیف جسٹس بنے۔ ان کے علاوہ ایک عیسائی جج جمشید رحمت اللہ نے 2009 میں ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت میں عہدہ سنبھالا۔
اب کچھ لوگوں کے زہن میں یہ سوال اٹھے گا۔ کہ اعلٰی عدلیہ میں اتنی کم تعداد میں غیر مسلم ججز کیوں ہیں۔ تو ہمیں اس حقیقت پر بھی نظر دوڑانی چاہیے۔ کہ اگر اعلی عدلیہ میں صرف 4 فی صد ہی غیر مسلم ججز ہیں تو جناب پورے ملک میں بھی صرف 4 فی صد آبادی ہی غیر مسلم ہے۔
غیر مسلم آبادی کے چند نمائندگان بشمول عیسائی و احمدی فرقے کے لوگوں پاکستانی آئین میں شامل آرٹیکل 295 بی اور سی کا ان کے خلاف غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
آرٹیکل 295 کے مطابق کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کی مذہبی معاملات میں مداخلت کرئے، ان کی مذہبی شخصیات کی بے حرمتی کرے۔ ان کے مذہبی مقامات کو نقصان پہنچائے۔ ان کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے۔
اسی طرح کسی شہری کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قران مجید کی بے حمرتی کرے۔ ایسا کرنے والے تا عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی حضرت محمد ﷺ کی ذات اقدس کی گستاخی کرے گا تو اسے سزائے موت اور جرمانہ یا صرف سزائے موت دی اج سکتی ہے۔
اگر کسی ملزم کے خلاف دفعہ 295 سی کا چارج ہے تو اس کے کیس کو سیش جج کے سامنے پیش کیا جائے گا جس کا مسلمان ہونا لازمی ہے۔
مشرف دور میں ایک آرڈینینس کے زریعے 295 سی کے مقمدہ کی تفتیش کے لئے ایس پی رینگ کا افسر ہی مجاز تفتیش ہے۔
1988 سے لیکر 2005 تک تقریباً 600 سے زائد لوگوں پر اس دفعہ کے تحت مقدمات درج ہوئے لیکن ملکی تاریخ اور قانون میں کوئی بھی ایک ایسا کیس نہیں ہے جس میں کسی کو کبھی سزائے موت دی گئی ہو۔
مئی 2010 میں سماجی روابط کی ویب سائیٹ فیس بک کو پاکستان میں موجود قوانین کی بنیاد پر اس ویب سائیٹ کو بند کر دیا گیا۔ اسی طرح بعد میں ، خلاف اسلام اور توہین آمیز مواد کی حامل دوسری ویب سائیٹس جن میں یا ہو ، ایم ایس این ، گوگل ، ایمزون وغیرہ شامل ہیں کو پاکستان میں بلاک کر دیا گیا۔

0 comments: